شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے
میں نے سب تیاریاں کر لی ہیں مرنے کے لیے
بہت دنوں میں کہیں ہجر ماہ و سال کے بعد
رکا ہوا ہے زمانہ ترے وصال کے بعد
بولے نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات
وہ خوشی تھا امید تھا اک احساس تھا
بعد میں یہ گمان ہوا بس پل دو پل کا ساتھ تھا
رہتا ہے آج بھی انتظار اِس آنکھ کو کسی اپنے کا
وہ جا کر آج بھی ساتھ ہے جو کبھی ہمارے پاس تھا
میں نے تم کو دل دیا اور تم نے مجھے رسوا کیا
میں نے تم سے کیا کیا اور تم نے مجھ سے کیا کیا
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے