بچھڑ گئے تو پِھر ملنے کے آس کیا رکھیں
بچھڑ گئے تو پِھر ملنے کے آس کیا رکھیں
مرجھائے ہوئے پھول کھلنے کے آس کیا رکھیں
لگائے ہیں جو خود اپنے ہاتھ سے انجم
ان زخموں کے سلنے کی آس کیا رکھیں
بچھڑ گئے تو پِھر ملنے کے آس کیا رکھیں
مرجھائے ہوئے پھول کھلنے کے آس کیا رکھیں
لگائے ہیں جو خود اپنے ہاتھ سے انجم
ان زخموں کے سلنے کی آس کیا رکھیں
رگوں میں دوڑتے پھرنے كے ہَم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پِھر لہو کیا ہے
اشارہ تو مدد کا کر رہا تھا ڈوبنے والا
مگر یارانِ ساحل نے سلامِ الوداع سمجھا
رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا