ہر گھڑی خود سے الجھنا ہے مقدر میرا

ہر گھڑی خود سے الجھنا ہے مقدر میرا
میں ہی کشتی ہوں مجھی میں ہے سمندر میرا
ہر گھڑی خود سے الجھنا ہے مقدر میرا
میں ہی کشتی ہوں مجھی میں ہے سمندر میرا
کچھ آدمی ہی یار بنانے کے لیے ہوتے ہیں
باقی سارے علاقہ بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں
ہم ایسے لوگ کیسے رہہ سکتے ہیں دل میں تیرے
ہم ایسے دشت میں ہی ٹھکانے کے لیے ہوتے ہیں
جاناں گھروں کو آگ نہیں ہیں لگایا کرتے
دل اور جان سے یہ بسانے کے لیے ہوتے ہیں
بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی
تمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھی
حیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزری
گہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھی
مِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھا
کہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھی
عین ممکن تھا کہ میں تیرے کئیے پر صبر ہی کرجاتا
مگر افسوس! کہ میری تلخیاں بھی ناگزیر ٹھریں۔
حسن و دولت ہیں عارضی آخر
خاک ہونی ہے دلکشی آخر
نام، منصب، عروج، شہرت بھی
سب یہ ہوتے ہیں موسمی آخر
کیوں رنجیدہ ہو انکے جانے پر
پنچھی ہوتے ہیں ہجرتی آخر
ایک جگنو میرا ہم نفس بنا
چھٹ گئی ساری تیرگی آخر
مزید پڑھیں […]
اٹھائے ہیں کیا کیا ستم رات بھر میں
دیے جل رہے ہیں امیدِ سحر میں
بہت سے کٹھن راستے ہیں مگر تم
چراغوں کو بجھنے نہ دینا نگر میں
بتاتی ہے بے چین پلکوں کی الجھن
دریچے کھلے ہی رہے رات بھر میں
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے