حال دِل کیا کہیں صنم تم کو
حال دِل کیا کہیں صنم تم کو
شب غم کیوں ختم نہیں ہوتی
رخ جانا نقاب اُتار ذرا
خلش دِل ہی کم نہیں ہوتی
تم جو وعدہ اگر نبھا لیتے
آج یہ چشم نم نہیں ہوتی
حال دِل کیا کہیں صنم تم کو
شب غم کیوں ختم نہیں ہوتی
رخ جانا نقاب اُتار ذرا
خلش دِل ہی کم نہیں ہوتی
تم جو وعدہ اگر نبھا لیتے
آج یہ چشم نم نہیں ہوتی
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا
دِل سے جو بات نکلتی ہے ، اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
با مہذب ہے زندگی اپنی
دیا اپنا ہے روشنی اپنی
سر پہ ٹوپی ہے ہاتھ میں ہے قلم
کتنی دلکش ہے سادگی اپنی
مذہب و ذات کی نہیں ہے خبر
کتنی پاکیزہ دوستی اپنی
غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے
بس اک جھجک ہے یہی حال دل سنانے میں
کہ تیرا ذکر بھی آئے گا اس فسانے میں