زندگی ایک فن ہے لمحوں کو

زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز سے گنوانے کا
دِل میں افسوس آنكھوں میں نمی سی رہتی ہے
زندگی میں شاید کوئی کمی سی رہتی ہے
مجھ سے روٹھ جاتے ہیں اکثر اپنے وصی
شاید میرے خلوص میں کوئی کمی سی رہتی ہے
عجب تضاد میں کاٹا ہے زندگی کا سفر
لبوں پہ پیاس تھی بادل تھے سر پہ چھائے ہوئے
کسی سے اپنا یارانہ نہیں رہا
یہاں کوئی یار پرانا نہیں رہا
خانہ بدوشوں جیسی ہے زندگانی
کسی دل میں اب ٹھکانا نہیں رہا
آواز دے كے چُھپ گئی ہر بار زندگی
ہَم ایسا سادہ دِل تھے كے ہر بار آ گئے
ہمیں کیا پتہ تھا كے یہ زندگی اتنی انمول ہے
کفن کھول کر دیکھا تو نفرت کرنے والے بھی رو پڑے
دم ادا میں تیرے جو اسیر ہوگئے
عاشقی ہوئی یہاں تک كے میر ہوگئے
حسن وجمال کی تیرے کرکے مصوری
آخر کو ہم بھی اک تصویر ہوگئے
جدوجہد مسلسل ہے ، منزل کی آرزو
زندگی كے اِس سفر میں راہگیر ہوگئے