کسی سے اپنا یارانہ نہیں رہا
یہاں کوئی یار پرانا نہیں رہا
خانہ بدوشوں جیسی ہے زندگانی
کسی دل میں اب ٹھکانا نہیں رہا
پیار كے بدلے سدا نفرت ملی ہے
اب میرا مزاج عاشقانہ نہیں رہا
آج کل اس کا کوئی پیغام نہیں آیا
شاید اس کا عشق بھی باغیانہ نہیں رہا
سوچتا ہوں اس سے کیسے ملنے جاؤں
میرے پاس بھی کوئی بہانہ نہیں رہا