اِس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے

اِس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
اِس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
تبدیلی جب بھی آتی ہے موسم کی اداؤں میں
کسی کا یوں بدل جانا بہت ہی یاد آتا ہے
مجھے مار ہی نہ ڈالے ان بادلوں کی سازش
یہ جب سے برس رہے ہیں تم یاد آ رہے ہو
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا
میں اکژہاتھ ہونٹوں سے لگا کر چوم لیتا ہوں
کبھی جب یاد آتا ہے تمھارا تھامنا اِن کو
دِل کو دِل سے راہ ہے تو ، جس طرح سے ہَم تجھے
یاد کرتے ہے کرے یوں ہی ہمیں بھی یاد تو