شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے

شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
پچھلے سفر میں جو کچھ بیتا بیت گیا یارو لیکن
اگلا سفر جب بھی تم کرنا دیکھو تنہا مت کرنا
نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا
کسی کو کیا مجھے خود بھی یقیں نہیں آتا
میں سوچتا ہوں مگر یاد کچھ نہیں آتا
کہ اختتام کہاں خواب کے سفر کا ہوا
جان بوجھ کر سمجھ کر میں نے بھلا دیا
ہر وہ قصہ جو دل کو بہلانے والا تھا
جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا
سمجھوتا کوئی خواب کے بدلے نہیں ہوگا
بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں
جب طے ہے کہ کچھ وقت سے پہلے نہیں ہوگا
آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے
میں نے سب تیاریاں کر لی ہیں مرنے کے لیے