خزاں خرِید کے لائے ہیں اُس کا سُود بہار

خزاں خرِید کے لائے ہیں اُس کا سُود بہار
مگر لبوں پہ رکھی اُس کے باوجُود بہار
نظر میں سایہ تھا وہ بھی ہُؤا ہے اب معُدوم
کہِیں ثمُودؔ ہے یار و کہِیں پہ ہُود بہار
فراخ دِل تھے جو کچّے گھروں میں رہتے تھے
چمن میں بچپنا خُوشبُو تھا کھیل کُود بہار