خزاں خرِید کے لائے ہیں اُس کا سُود بہار
مگر لبوں پہ رکھی اُس کے باوجُود بہار
نظر میں سایہ تھا وہ بھی ہُؤا ہے اب معُدوم
کہِیں ثمُودؔ ہے یار و کہِیں پہ ہُود بہار
فراخ دِل تھے جو کچّے گھروں میں رہتے تھے
چمن میں بچپنا خُوشبُو تھا کھیل کُود بہار
جوانی ہم نے گُزاری ہے درد فصل کے بِیچ
نظر میں گویا رہی بن کے کوئی دُود بہار
اگرچہ چہرے پہ آثار زلزلوں کے تھے
گئی قرِیب سے چُپ چاپ جیسے کُود بہار
خُُدا کے خاص کرم کی طلب ہے اُس کے لِیئے
زوال زد میں نہ آ جائے ایسا زُود بہار
وہ ایک شخص جو ہم سے بہار میں بِِچھڑا
رشِیدؔ تب سے ابھی تک رہی جمُود بہار
رشِید حسرتؔ