گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا

گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اِس سے کیا
بوجتی رہے ہواؤں سے دَر مگر تم کو اِس سے کیا
تم موج موج مثلِ صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ كے پر ، تم کو اِس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر ، تم کو اِس سے کیا
بعد مدت اسے دیکھا لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا لوگو
خوش نہ تھا مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اس کے چہرے پہ لکھا تھا لوگو
تیرا پہلو تیرے دِل کے طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اِس شرط پے کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پِھر آنکھ كے کاجل کی طرح