بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو امیدی

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو امیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو امیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمع بھی بجھانے كے لیے آ
پلکیں اٹھا کر پلکیں جکایا نہ کرو
بات کو یونہی تم الجھایا نہ کرو
زخم بدل جاتے ہیں ناسور کی صورت
درد ذرا سا بھی ہو چھپایا نہ کرو
مزید پڑھیں […]
کوئی گلہ کوئی شکوہ نہ رہے آپ سے
یہ آرزو ہے اک سلسلہ بنا رہے آپ سے
بس اک بات کی امید ہے آپ سے
دِل سے دور نہ کرنا اگر دور بھی رہیں آپ سے
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی
میں تجھ کو پانے کی حسرت میں کب تک ذلت اٹھاتا رہوں
کوئی ایسا دے مجھے دھوکہ كہ میری آس ٹوٹ جائے