غضب کی دھوپ تھی تنہائیوں كے جنگل میں

غضب کی دھوپ تھی تنہائیوں كے جنگل میں
شجر بہت تھے ، مگر کوئی سایہ دار نہ تھا
غضب کی دھوپ تھی تنہائیوں كے جنگل میں
شجر بہت تھے ، مگر کوئی سایہ دار نہ تھا
دشتِ تنہائی میں جسے چھوڑ آئے تم
سرابوں سے پُوچھتا ہے یہ پیار کیسا ہے
سچ ہی کھا تھی کسی نے تنہا جینا سیکھ
محبت جتنی بھی سچی ہو ساتھ چھوڑ جاتی ہے
آئی جو تیری یاد تنہائی میں
آنکھیں برستی رہی جدائی میں
تیرا پہلو تیرے دِل کے طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
آج تنہائی کسی ہمدم دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے میری ساقی گیری شام ڈھلے
منتظر بیٹھے ہے ہَم دونوں كے مہتاب ابھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
ہم تنہا تھے جب بارش نے دستک دی دروازے پر
ہمیں یوں لگا کے تم آئے ہو
انداز تمھارے جیسا تھا
ہم تنہا تھے جب راہوں میں اک جھونکے نے میرا ساتھ دیا
ہمیں یوں لگا کے تم آئے ہو
انداز تمھارے جیسا تھا
نا رہی بارش نا رہا جھونکا
سب چھوڑ گئے مجھ کو تنہا
ہمیں یوں لگا کے تم جا رہے ہو
انداز تمھارے جیسا تھا
جب چلے تو تنہا تھے سفر میں محسن
پِھر تم ملے غم ملے تنہائی ملی قافلہ سا بن گیا