عشق ابھی سے تنہا تنہا
عشق ابھی سے تنہا تنہا
ہجر کی بھی آئی نہیں نوبت
سارا ہی شہر اس کے جنازے میں تھا شریک
تنہائیوں کے خوف سے جو شخص مر گیا
میں تنہا لڑکی دیار شب میں جلاؤں سچ کے دیئے کہاں تک
سیاہ کاروں کی سلطنت میں میں کس طرح آفتاب لکھوں
اُداسی ، شام ، تنہائی ، کسک اور یادوں کے بے چینی
مجھے سب سونپ کر سورج اُتَر جاتا ہے پانی میں
تنہائیوں کا اک الگ ہی مزہ ہے
اِس میں ڈر نہیں ہوتا کسی كے چھوڑ جانے کا
تیری خاطر ہم اک شام چرانے نکلے
دَرد میں ڈھال كے خود کو آزمانے نکلے
پِھر انہی ترسی نظروں سے تماشا دیکھا
بات اتنی سے تھی کے سب زخم پُرانے نکلے
صنم پوچھتا نہیں حال میرا
جینا ہوا جاتا ہے محال میرا
کبھی میرے بھی دن بدلیں گے
کسی دن اسے آئے گا خیال میرا
مجھے اپنانا ہے تو اپنا میری کمزوریوں كے ساتھ
یا مجھے چھوڑ دے میری تنہائیوں كے ساتھ