ریت پہ کبھی نام لکھتے نہیں
ریت پہ کبھی نام لکھتے نہیں
لکھے نام کبھی ٹکتے نہیں
لوگ تو کہتے ہیں ہم پتھر دِل ہیں
لیکن پتھروں پہ لکھے نام کبھی مٹتے نہیں
ریت پہ کبھی نام لکھتے نہیں
لکھے نام کبھی ٹکتے نہیں
لوگ تو کہتے ہیں ہم پتھر دِل ہیں
لیکن پتھروں پہ لکھے نام کبھی مٹتے نہیں
ایک بے وفا سے دوستی لگا کر رو پڑے
اسے دوبارہ دیکھ کر خوشی سے رو پڑے
وہ تو دوست کی شکل میں تھا ہی بے وفا
اسے اپنا دِل دے کر رو پڑے
یہ نہ سمجھو کے بچھڑا ہوں تو بھول گیا ہوں تم کو
تیرے ہاتھوں کی خوشبو مرے ھاتھوں میں آج بھی ہے
یہ اور بات ہے مجبوریوں نے نبھانے نہ دیا وہ تعلق
ورنہ شامل سچائی میری وفاؤں میں آج بھی ہے
محبت سے بڑھ کر تم سے عقیدت ہے مجھے آج بھی
یوں مقام تیرا بلند میرے دِل میں آج بھی ہے
ہر لمحہ زندگی میں محبتیں نصیب ہوں تجھے
شامل تو میری زندگی کی دعاؤں میں آج بھی ہے
نہیں میں غم سے ابرا ہوں ، کہیں اک درد باقی ہے
نہیں وہ اب ملے گی پر ، ابھی امید باقی ہے
سفر میں عشق كے یارو ، میں کیا کیا داستان لکھوں
بہت سے خواب ٹوٹے ہے ، بہت سے خواب باقی ہیں
بس اسکی یاد میں اب تو ، مجھے کھونے دو اس حد تک
اگر میں رو رہا ہوں تو ، مجھے رونے دو اس حد تک
بہت آنسو ہے آنکھوں میں ، انہیں بہنے سے نہ روکو
بہے جو کچھ نہیں یہ تو ، ابھی سیلاب باقی ہے
رہے گی جان جب تک یہ ، اسے نہ بھول پاؤں گا
كہ جب تک مٹ نہ جاؤں میں ، اسےشدت سے چاہوں گا
حسین اب بات یہ ہے تو ، ابھی کیسے اسے بھولوں
ابھی ہیں دھڑکنیں دِل میں ، ابھی کچھ سانس باقی ہے
ہم بھی چاہتے تھے غالب کی طرح شاعر بن جانا
مگر ہماری قلم تو اور کچھ لکھتی ہی نہیں تیرے نام کے سوا
لکھنا میرے مزار کے قطبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا
اک وقت کے کھونے کا احساس ہوا ہے
یہ لمحہ نا کبھی سچ ماں پاس ہوا ہے
کیوں ملتی مجھے وقتی رہائی بھی رنج
جذبات کا قیدی بھی کبھی خاص ہوا ہے
وہ بیان کر گیا اک منظر الیگار سے
ہر پل کو تراشا اور ارض کیا اپنے یار سے
کیا پتہ یہ صلہ ملتا ہے دِل لگانے کا
پیار کی کشتی کو اتارا تھا بڑے پیار سے