وہ جو بے پناہ چاہتے تھے
وہ جو بے پناہ چاہتے تھے
اب وہ پناہ چاہتے ہیں
سپنے بننے کا حساب رکھا ہے
درد كے سہنے کا عذاب رکھا ہے
ساون کی رات میں جنوں کا لمحہ
جلتی آنكھوں میں خواب رکھا ہے
ندامت کے دَرو بام پہ ہوئے کفر كے حساب
وجدان میں طلوع ہوا صبح کا آفتاب
امکان ہے کے زندان سے ہو جائیں گے رہا
تسخیر کر لیا ہے نفرت کا وہ سیلاب
جب بھی کوئی سرد ہوا کا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا ہے
تیرا آہیں بھر بھر کر سسکنا میرے دِل کو محسوس ہوتا ہے
وہ جن کو دیکھ کر آنکھوں میں رونق آ جائے
وہی کچھ لوگ زندگی ویران کر جاتے ہیں
دِل اس کو دیا ہے تو وہی اس میں رہے گا
ہَم لوگ امانت میں خیانت نہیں کرتے
بنا کے سلگتے ہوئے صحرا میں اک ریت کا گھر
پِھر یوں ہوا وہ شخص ہواؤں کو اس کا پتہ دے گیا
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دِل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے