تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
قہر ہے ، موت ہے ، قضا ہے عشق
سچ تو یہ ہے ، بری بلا ہے عشق
دیکھئے کس جگہ ڈبو دے گا
میری کشتی کا نا خدا ہے عشق
جذبہ عشق پِھر مچلتا ہے
ڈھلتے ڈھلتے یہ چند ڈھلتا ہے
پوچھتی پِھر رہی ہے اوس ابھی
پھول کب پیرہن بدلتا ہے
صباء چلی زلف کھلی خوشبو پھیلی فضاؤں میں
ہوئی صبح کلی چٹخی کھلے گلاب ہواؤں میں
تیری نظر سے میری نظر تک حَسِین سفر گزر گیا
حیا آئی جھکی پلکیں شرام آئی نگاہوں میں
تصور میں تیرے ہمیشہ مخمور رہا ہوں
تو میرا ہَم نشیں ہے بہت مغرور رہا ہوں
دِل كے نگار خانے میں تجھ کو سجا لیا ہے
یوں الفت کی دنیا میں بہت مشہور رہا ہوں
وہ جو تیری عبادتوں میں بھی حائل رہا
وہ صرف میرے سچے عشق کا معجزہ تھا