وہ تیرا آنْک بھر کے مجھے دیکھنا

وہ تیرا آنکھ بھر کے مجھے دیکھنا
وہ تیرا دیکھنا ہی کمال تھا
میری جستجو كے احساس پر
تیرا لمس بھی تو بے مثال تھا
وہ تیرا آنکھ بھر کے مجھے دیکھنا
وہ تیرا دیکھنا ہی کمال تھا
میری جستجو كے احساس پر
تیرا لمس بھی تو بے مثال تھا
جھیل کنارے بیٹھ كے دونوں
پھولوں کی برسات کریں
موتی پڑو كے ان آنكھوں میں
سپنوں پہ ہَم بات کریں
سپنے بننے کا حساب رکھا ہے
درد كے سہنے کا عذاب رکھا ہے
ساون کی رات میں جنوں کا لمحہ
جلتی آنكھوں میں خواب رکھا ہے
تم ہو ضدی میں ہوں دیوانہ
جیت کس کی ہوتی ہے
تم ہو شمع میں ہوں پروانہ
جیت کس کی ہوتی ہے
در چھوڑ کے سوئے دار نکلی
روح مری قفس سے بیزار نکلی
اک اک سانس بیچ رہی ہے
زندگی موت کی خریدار نکلی
سنو کچھ کہنا چاہتا ہوں
تمھارے دِل میں رہنا چاہتا ہوں
تمہاری آنكھوں کا دیوانہ ہوں
شمع حسن کا پروانہ ہوں
یہ میری عمر میرے ماہ و سال دے اس کو
میرے خدا میرے دکھ سے نکال دے اس کو
وہ چُپ کھڑا ہے کئی دن سے تیری خاطر تو
کواڑ کھول دے اذانِ سوال دے اس کو
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اِس سے کیا
بوجتی رہے ہواؤں سے دَر مگر تم کو اِس سے کیا
تم موج موج مثلِ صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ كے پر ، تم کو اِس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر ، تم کو اِس سے کیا