سیاست مفادات میں کھو گئی ہے

سیاست مفادات میں کھو گئی ہے
حکومت نجانے کہاں سو گئی ہے
عوامی مسائل انہیں تب دکھے ہیں
کہ جب ان کی مدت ختم ہو گئی ہے
سیاست مفادات میں کھو گئی ہے
حکومت نجانے کہاں سو گئی ہے
عوامی مسائل انہیں تب دکھے ہیں
کہ جب ان کی مدت ختم ہو گئی ہے
دِل لگی ہے اور ، عشق ہے مشقت اور
بوجھ ہے کسی پہ ، کسی کی ہے ثروت اور
اپنے ہوئے بیگانے کہیں پہ
کہیں ہے دشمنوں کی عنایت اور
چاندنی چاند کی بن، رات بھر تیرا خیال رہا
ہو گا کہاں شب غم ، دِل میں یہ سوال رہا
کبھی یاد کیا وفا کو تیری ، کبھی آئی جفا یاد
رہی کشمکش یہی ، یہی رات بھر حال رہا
آنے کی خوشی ہے الگ ، جانے کا غم الگ
کسی کی خوشی ذات میری ، کس پہ ہے ستم الگ
دیکھ کے ویرانی میری روئے جہاں سارا
اپنا جسے سمجھا ، کرتا ہے تبسم الگ
مر جائیں گے تو کسی کے لب پہ نام ہو گا
ماتم ہو گا کہیں ، کہیں شہنایوں کا اہتمام ہو گا
کوئی روئے گا یاد کرے كے وفائیں
لبوں پہ کسی كے خوشیوں کا جام ہو گا
کبھی تو پلٹیں گے دن کبھی تو ہماری بات ہو گی
ابھی تو ہیں گمنام ، کبھی تو روشن ہماری ذات ہو گی
نہیں آتا سامنے کھل کر کوئی قاتل یہاں
غور کر اگر تو ہر قدم پہ گھات ہو گی
کچھ بات ہے كے آج خیال یار آیا
ایک بار نہی بلکہ بار بار آیا
بھول چکا تھا سب چوٹیں دِل کی
یہ کیا كے پِھر وہ زخم فگار آیا
وہ جی گیت تم نے سنا نہیں
میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں
جسے تم ہنسی میں اڑا گئے