بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا

بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتا نکل آیا
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتا نکل آیا
ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا
وہ مجھ سے بچھڑ کر اب تک رویا نہیں غالب
کوئی تو ہے ہمدرد جو اسے رونے نہیں دیتا
تمہیں جفا سے نہ یوں باز آنا چاہیئے تھا
ابھی کچھ اور مرا دل دکھانا چاہیئے تھا
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
اسے لاکھ دل سے پکار لو اسے دیکھ لو
کوئی ایک حرف جواب میں نہیں آئے گا
میں کسی اور زمانے کے لیے ہوں شاید
اس زمانے میں ہے مشکل مرا ظاہر ہونا