جانکنی میں مریضِ ہستی ہے
جانکنی میں مریضِ ہستی ہے
مانگتا ہے دوا زمانے سے
چارہ سازو! سنہری موقع ہے
زہر دے دو اسی بہانے سے
جانکنی میں مریضِ ہستی ہے
مانگتا ہے دوا زمانے سے
چارہ سازو! سنہری موقع ہے
زہر دے دو اسی بہانے سے
اب تک تو دل کا دل سے تعارف نہ ہو سکا
مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا
کیا کیا نہ ہم خراب ہوئے ہیں مگر یہ دل
اے یادِ یار تیرا ٹھکانہ بہت ہوا
کبھی نہ کبھی پورا یہ خواب ہوتا
تم ساتھ ہوتے ، کوئی نہ حجاب ہوتا
جب اپنا وصال ہوتا کوئی نہ خلل پڑتا
نہ رسم حیا ہوتی نہ کوئی نقاب ہوتا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اُتَر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب كے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
ماں کی ایک دعا زندگی دے گی
خود روئے گی تمہیں ہنسا دے گی
کبھی بھول کی بھی ماں کو نہ رلانا
اک چھوٹی سی غلطی پورا عرش ہلا دے گی
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
کس نے کیا تُجھے کے انجان بن کے آیا کر
میرے دل کے آئینے میں مہمان بن کے آیا کر
پاگل اِک تُجھے ہی تُو بخشی ہے دل کی حکومت
یہ تیری سلطنت ہے تُو سلطان بن کر آیا کر
چند بچوں کو پالا تھا ایک ماں نے جتن سے
ممتا کا صلہ پھر بھی ضعیفی میں نہ پائی
ہر چیز تو تقسیم ہوئی باپ کے مرتے
اک ماں تھے جو حصے میں کسی کے نہ آئئ