وہ شجر بے ثمر نہیں رہتے
وہ شجر بے ثمر نہیں رہتے
جو کسی آس پر نہیں رہتے
اپنے ہی سامنے دیوار بنا بیٹھا ہوں
ہے یہ انجام اسے رستے سے ہٹا دینے کا
کاش اس کے رو بہ رو نہ کریں مجھ کو حشر میں
کتنے مرے سوال ہیں جن کا نہیں جواب
اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس
مصروفیت میں آتی ہے بے حد تمہاری یاد
فرصت میں تیری یاد سے فرصت نہیں ملتی