تھک گیا عاشق محبت کی لاش اٹھاتے اٹھاتے

تھک گیا عاشق محبت کی لاش اٹھاتے اٹھاتے
دل ہے کہ جنازہ پڑھتا ہی نہیں
تھک گیا عاشق محبت کی لاش اٹھاتے اٹھاتے
دل ہے کہ جنازہ پڑھتا ہی نہیں
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
ہر ایک کانٹے پہ سرخ کرنیں ہر اک کلی میں چراغ روشن
خیال میں مسکرانے والے ترا تبسم کہاں نہیں ہے
آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر
آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا
تم میری طرف دیکھنا چھوڑو تو بتاؤں
ہر شخص تمہاری ہی طرف دیکھ رہا ہے
جب نظارے تھے تو آنکھوں کو نہیں تھی پروا
اب انہی آنکھوں نے چاہا تو نظارے نہیں تھے