رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
نہ کوئی عہد نبھا نہ کوئی ہمنوائی کر
دکھاوا چھوڑ تسلی سے بے وفائی کر
بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا
پھر اس کے بعد الجھتی گئی کہانی میری
اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم
معلوم ہی نہیں کدھر جا رہے ہیں ہم
محبت اگر لفظی ہے ، یا نقل ہے
ایسا مت کیجئے، نفسیاتی قتل ہے
قدرت ہو، تو اس کا ایک حل ہے
مزید پڑھیں […]
جانے کیوں دبائی جا رہی ہے کشمیر کی آواز
میں پوچھتا ہوں کہاں اٹھائی جا رہی ہے کشمیر کی آواز
طارق، ایوبی اور قاسم کو یاد کرو
مزید پڑھیں […]