تیرے سوا میرے اور بھی کہیں غم ہیں
تیرے سوا میرے اور بھی کہیں غم ہیں
اک تیرا روٹھ جانا وجہ علالت نہیں مجھ کو
بس اک تیری گلی کا ہوکے رہ جاؤں
اب اپنے کاموں سے اتنی بھی فراغت نہیں مجھ کو
تیرے سوا میرے اور بھی کہیں غم ہیں
اک تیرا روٹھ جانا وجہ علالت نہیں مجھ کو
بس اک تیری گلی کا ہوکے رہ جاؤں
اب اپنے کاموں سے اتنی بھی فراغت نہیں مجھ کو
اب کے خود سے بھی الفت نہیں مجھ کو
تیرے سوا کسی اور کی عادت نہیں مجھ کو
رفتہ رفتہ یہ ہنر بھی سیکھ جاؤں گا
ابھی روٹھوں کو منانے کی عادت نہیں مجھ کو
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
تجھے بھول کر بھی نہ بھلا سکوں ، تجھے چاہ کر بھی نا پا سکوں
میری حسرتوں کو شمار کر میری چاہتوں کا صلہ نہ دے
اہل خرد کو آج بھی اپنے یقین کے لیے
جس کی مثال ہی نہیں اس کی مثال چاہئے
خدا کرے وہ دن بھی میسر ہو جس دن میں کہ سکوں
بابا آج تم سر فخر سے اٹھا کر چلو