دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
ہرچند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
ہرچند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں
کیا تعجب ہے کہ ہم اہل تمنا کو فراز
وہ جو محرومِ تمنا ہیںبرا کہتے ہیں
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
ہے کون سی کمی جو مجھ کو ستا رہی ہے
ہے کون سا وہ غم جو جی کو جلا رہا ہے
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
ٹوٹا ہے دل یہ میرا نم ہیں مری نگاہیں
ہے کون سا وہ دکھ جو دل کو دکھا رہا ہے
میں نا تو بتا را ہوں نا ہی چھپا رہا ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
ڈوبا ہوا ہوں کیوں میں ازل سے اندھیروں میں ماں
ہے کون سا یہ شکوہ جو لب سے بتا را ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
رہتا ہوں غم کے گھر میں کس کی عنایتیں ہیں
ہے کس کی زہ نوازی دھوکہ جو یہ کھا را ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
کس نے دیا ہے مجھ کو رسوایوں کا خزانہ
یہ کس کہ ظلم وستم کو میں نبھا رہا ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
ماں تیرا غم لیے دل میں جیئے جا رہا ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
موٹی، کالی، محبت، کوڑی کوجی ماسی مامے دی
ممکنہ حالات وچ منتظر دے نال مفت وچ مفرور ہوئی
ہمیشہ پاکیزگی ہی نیلام ہوتی ہے ساحل
بے حیائی تو خود ہی بکا کرتی ہے