مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے
ال لیل
قسم رات کے اندھیرے کی ، جب وہ چھا جائے
اور دن کے اُجالے کی ، جب آشکار ہو جائے
دونوں حقیقت میں تفریق ہے
جیسے اعمالِ انساں میں تفریق ہے
ایک خواہش دنیا سے ہٹ کے پرے
الله سے ڈرے صدقہ بھی کرے
یہ وہ مردِ مومن ، جس کے لیے
ہموار راہیں خود الله کرے
عشق پر گیت لکھوں کیوں کر، عشق میں رہا سرورنہیں
سُر تال کے نشے میں جھوم اُٹھا، چڑھا کوئی فطور نہیں
میری حالت پر نہ ترس کھا ،کہ ابھی جان سے گزرنا ہے
خودی بنا رکھی ہے یہ حالت اپنی، مُصور کا قصور نہیں
مجھے جنت میں بھی چاہیے صرف اور صرف تیرا ساتھ
وہاں بھی طلبِ تحت، طلبِ مہ یا طلبِ حور نہیں
طلب یوں جیسے آواز کو الفاظ کی، گیت کو ساز کی
لیکن چھین لوں تیری خوشی یہ بھی منظور نہیں
وہ گناہ کیے جو بتاؤں تو مان لیں اُستاد اپنا
ان گناہگاروں میں لیکن ابھی ہونا مشہور نہیں
کوئی کر نا دے نعمانؔ ذخمی مجھے، پہنی ہتھکڑی اس لیے
ورنہ میں کوئی مجرم نہیں، تیرے زنداں میں محصور نہیں
ذخمی ہے دل مگر دوا کی طلب نہیں
خوشی گوارا نہیں ہاں کسی سبب نہیں
ملیے مگر ذرا کترا کر ملیں حضور
اب منکرِوفا ہوں وہی باآدب نہیں
مرتے ہیں روز کئی لوگ راہِ وفا میں یوں
اُنکی قبر پر کوئی نام نہیں کتبہ نصب نہیں
میں تھا اور تھی ساتھ تیری یاد مسلسل
کہہ دوں کہ تو ہی ساتھ تھا تو یہ عجب نہیں
ہم کلامی کو کہتے ہیں کبیرہ گناہ
اُنکی نظر جو ڈھائے ستم وہ غضب نہیں
سہہ لوں گا نعمانؔ جیتنے بھی وار ہوں جسم پر
مگر آنکھ سے نہیں دل کی ضرب نہیں
کس نے کیا تُجھے کے انجان بن کے آیا کر
میرے دل کے آئینے میں مہمان بن کے آیا کر
پاگل اِک تُجھے ہی تُو بخشی ہے دل کی حکومت
یہ تیری سلطنت ہے تُو سلطان بن کر آیا کر
کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے
کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے