وہ ہمیں گمان میں رکھ کے کیا خوب کھیلے

وہ ہمیں گمان میں رکھ کے کیا خوب کھیلے
جیت کے نشے میں رکھ کے کیا خوب جیتے
وہ ہمیں گمان میں رکھ کے کیا خوب کھیلے
جیت کے نشے میں رکھ کے کیا خوب جیتے
چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں
تو جیسے مرے پاس ہے اور محوِ سخن ہے
محفل سی جما دیتی ہیں اکثر تیری یادیں
ان لمحوں کی یادیں سنبھال کے رکھنا
ہم یاد تو آئیں گے لیکن لوٹ کے نہیں
جی نہیں کرتا ہے اب رہنے کو پاکستان میں
کوئ مجھ کو باہر نکالو اس عذاب جان سے
گندگی کا ڈھیر جگہ جگہ موجود ہے
نکلنے کا دل نہیں کرتا باہر ایمان سے
بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہم
چپ چاپ سوگوار تمہیں سوچتے رہے
آنکھ میں آنکھ ڈال دیکھا ہے
میں نے سارا جمال دیکھا ہے
تیری یادوں کے ایک لمحے میں
میں نے گزرتا سال دیکھا ہے
کوئی اُس کے سوا نا رہتا ہو مزید پڑھیں […]
جن کو سورج میری چوکھٹ سے ملا کرتا تھا
اب وہ خیرات میں دیتے ہیں اجالے مجھ کو