چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں
تو جیسے مرے پاس ہے اور محوِ سخن ہے
محفل سی جما دیتی ہیں اکثر تیری یادیں
میں کیوں نہ پھروں تپتی دوپہروں میں ہراساں
پھرتی ہیں تصوّر میں کھُلے سر تری یادیں
جب تیز ہوا چلتی ہے بستی میں سرِ شام
برساتی ہیں اطراف سے پتھر تیری یادیں