عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
جب کبھی ٹوٹ کر بکھرو تو بتانا ہَم کو
ہَم تمہیں ریت كے ذروں سے بھی چن سکتے ہیں
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے
وہ دل میں چلی آتی ہے چپکے چپکے
کچھ بھول بھی جاوٴں تو بتا جاتی ہے چپکے چپکے
بارہا ایسا بھی ہو محفل میں
ماں مجھے چوم جاتی ہے چپکے چپکے
کاش تجھے مل کے بتا پاوٴں
یاد تیری کتنا رلاتی ہے مجھے چپکے چپکے
اپنے بچوں میں الجھ کر اُڑ جاتی ہے میری نیند
ماں پھر آکے لوری سنا جاتی ہے چپکے چپکے
اُسکا چہرہ بھی ہے اُسی کی طرح مغرور
کوئی دیکھے تو کیسے وہ رہتا ہے سب سے دور
لگتا ہے ھو بہ ھو اُسی تجلی جیسا
جس سے جل گیا ہو گا کوہِ طور
مُلّا نے پڑھی نمازیں اور کیا چہرہ روشن
روشن اُس جیسا جو چھلکتا ہے اُسکی پیشانی سے نور
مسجد میں نہ ملے تو ساقی کی نظر سے شیخ
دیکھنا اُسکی انکھوں میں خدا ملے گا ضرور
وہ چہرہ تھا رو بہ رو میرے، چھوا نہ اُسے
اسے شرافت کہو یا کہہ دو بندہ تھا مجبور
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر