ماں پھر آکے لوری سنا جاتی ہے چپکے چپکے

Mother-Poetry-chupke chupke

وہ دل میں چلی آتی ہے چپکے چپکے
کچھ بھول بھی جاوٴں تو بتا جاتی ہے چپکے چپکے
بارہا ایسا بھی ہو محفل میں
ماں مجھے چوم جاتی ہے چپکے چپکے
کاش تجھے مل کے بتا پاوٴں
یاد تیری کتنا رلاتی ہے مجھے چپکے چپکے
اپنے بچوں میں الجھ کر اُڑ جاتی ہے میری نیند
ماں پھر آکے لوری سنا جاتی ہے چپکے چپکے

اُسکا چہرہ بھی ہے اُسی کی طرح مغرور

masjid main na milay

اُسکا چہرہ بھی ہے اُسی کی طرح مغرور
کوئی دیکھے تو کیسے وہ رہتا ہے سب سے دور

لگتا ہے ھو بہ ھو اُسی تجلی جیسا
جس سے جل گیا ہو گا کوہِ طور

مُلّا نے پڑھی نمازیں اور کیا چہرہ روشن
روشن اُس جیسا جو چھلکتا ہے اُسکی پیشانی سے نور

مسجد میں نہ ملے تو ساقی کی نظر سے شیخ
دیکھنا اُسکی انکھوں میں خدا ملے گا ضرور

وہ چہرہ تھا رو بہ رو میرے، چھوا نہ اُسے
اسے شرافت کہو یا کہہ دو بندہ تھا مجبور