لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایہ ہے
آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے
کہا تھا کس نے کہ عہدِ وفا کرو اُس سے
جو یوں کِیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اُس سے
نصیب پھر کوئی تقریبِ قرب ہو کہ نہ ہو
جو دل میں ہوں، وہی باتیں کہا کرو اُس سے
بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا
ہر ایک کانٹے پہ سرخ کرنیں ہر اک کلی میں چراغ روشن
خیال میں مسکرانے والے ترا تبسم کہاں نہیں ہے
یقین نہ آئے تو اک بار پوچھ کر دیکھو
جو ہنس رہا ہے ، وہ زخموں سے چور نکلے گا
آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر
آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا