یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
نہ کوئی غم خزاں کا ہے نہ ہے خواہش بہاروں کی
ہمارے ساتھ ہے امجد کسی کی یاد کا موسم
تھک گیا عاشق محبت کی لاش اٹھاتے اٹھاتے
دل ہے کہ جنازہ پڑھتا ہی نہیں
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اُتَر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب كے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
تابندہ و پایندہ ہیں ذروں کے سہارے