اب کیوں روشنی سے ڈرتے ہو فراز
اب کیوں روشنی سے ڈرتے ہو فراز
تم تو کہتے تھے مجھے چاند چاہیے
اب کیوں روشنی سے ڈرتے ہو فراز
تم تو کہتے تھے مجھے چاند چاہیے
اِس قدر ٹوٹ كے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
بکھر رہے ہیں میری زندگی کے تمام ورق
نہ جانے کب کوئ آندھی اڑا کر لے جاۓ
میں کب تلک دوسروں کے دکھ سمبھال کر رکھوں
جس جس کے ہیں وہ نشانی بتا کر لے جاۓ
میں جب بھی چاہوں اسے چھو كے دیکھ سکتی ہوں
مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب بھی خواب ایسا
الفاظ گرا دیتے ہیں جذبات کی قیبت
ہر بات کو الفاط میں تولا نہیں کرتے
تم میری آنكھوں كے تیور نہ بھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھو گے تو یاد آؤں گا
لو میں آنکھیں بند کیے لیتی ہوں اب تم رخصت ہو
دِل تو جانے کیا کہتا ہے لیکن دِل کا کہنا کیا
جواب دیتا ہوں میں بھی کمال آنكھوں سے
وہ لے كے آتے ہیں جب بھی سوال آنكھوں میں