تو غبار سفر میں خزاں کی صدا
تو غبار سفر میں خزاں کی صدا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
میں نے ساری خدائی میں تجھ کو چنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
تو غبار سفر میں خزاں کی صدا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
میں نے ساری خدائی میں تجھ کو چنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
تیرے جمال سے آنکھیں حَسِین ہیں میری
تیرے خیال سے دِل میں چراغ جلتے ہیں
تمھیں خبر ہی نہیں كے کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
اے زندگی تو ہی بتا کیسے تجھ سے پیار کروں میں
تیری ہر سانس میری عمر گھٹا دیتی ہے
تیرے قریب بھی رہ کر تجھے تلاش کروں
محبتوں میں میری بد حواسیاں نہ گئیں
عجیب طرح سے دونوں ناكام ہوئے محسن
وہ مجھے چاہ نہ سکا اور میں اسے بھلا نہ سکا
تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری
لوگ مر جائیں بلا سے تیری
کوئی نسبت کبھی اے جانِ سخن
کسی محرومِ نوا سے تیری
اے میرے ابرِ گریزان کب تک
راہ تکتے رہیں پیاسے تیری
تیرے مقتل بھی ہمیں سے آباد
ہم بھی زندہ ہیں دعا سے تیری
تو بھی نادم ہے زمانے سے ‘فراز‘
وہ بھی ناخوش ہیں وفا سے تیری
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں