پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
كہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
كہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
انا کی موج مستی میں ابھی بھی بادشاہ ہیں ہم
جو ہم کو توڑ دیتا ہے ، ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
ملے الجنوں سے فرصت تو ذرا دِل سے پوچھ لینا
کیا دوستی یہی ہے صرف فرصتوں میں یاد کرنا
حسن كردار سے نور مجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے
میرا کارنامہ زندگی میری حسرتوں كے سوا کچھ نہیں
یہ کیا نہیں ، وہ ہوا نہیں ، یہ ملا نہیں ، وہ رہا نہیں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
یاد کر كے مجھے تکلیف ہی ہوتی ہو گی
اک قصہ ہوں پرانا سا بھلا دے مجھ کو