ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن

ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی برُہان
قہاّری و غفاّری و قدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی برُہان
قہاّری و غفاّری و قدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
محبت کر سکتے ہو تو خدا سے کرو فراز
مٹی كے کھلونوں سے کبھی وفا نہیں ملتی
تجھ سے ملنے کو کبھی ہم جو مچل جاتے ہیں
تو خیالوں میں بہت دور نکل جاتے ہیں
گر وفاؤں میں صداقت بھی ہو شدت بھی ہو
پھر تو احساس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
اس کی آنکھوں کے نشے میں ہم جب سے ڈوبے
لڑکھڑاتے ہیں قدم اور سنبھل جاتے ہیں
اس سے جدائی کا جب بھی خیال آتا ہے
اشک رخسار پہ آنکھوں سے پھسل جاتے ہیں
پیار میں ایک ہی موسم ہے بہاروں کا
لوگ موسم کی طرح کیسے بدل جاتے ہیں
تمام عمر اسی كے خیال میں گزری فراز
میرا خیال جسے عمر بھر نہیں آیا
ندیم میں کبھی اظہار مدعا نہ کروں گا
مگر وہ بہر خدا یہ غزل تو سنتے جائیں
ہر شام تیری یار میں جلتا ہوا دیکھوں
کب تک دِل بیتاب مچلتا ہوا دیکھوں
آنچل کی طرح تن سے لپٹ جاؤں تیرے
اور خود کو تیری ذات میں دہلتا ہوا دیکھوں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ كے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بَدَل جاتے ہیں انسان جاناں
گر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس
اگر لہو ہے بدن میں تو دِل ہے بے وسواس
جسے ملا یہ متاع گراں بہا اِس کو
نا سیم و زر سے محبت ہے نہ غم افلاس