جس کی باتوں کے فسانے لکھے

جس کی باتوں کے فسانے لکھے
اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید
میں نہ جگنو ہوں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں
روشنی والے میرے نام سے جلتے کیوں ہیں
لیلیٰ و مجنوں کا قِصّہ کوئی سنتا ہی نہیں
بحث عالم کو فقط یا تم سے ہے یا ہم سے ہے
میں زیادہ ہوں بہت اس کے لیے اب تک بھی
اور میرے لیے وہ سارے کا سارا کم ہے
میں اس کو پوج تو سکتا ہوں چھو نہیں سکتا
جو فاصلوں کی طرح میرے ساتھ رہتا ہے
خوشبو سے رنگ، رنگ سے خوشبو نکال دے
دل کو بجھا کے شہرِ تمنا اجال دے
اپنے عمل کا آپ ہی اچھا سا نام رکھ
کم ظرفئ نگاہ کو حسن ِ مآل دے
کیا بتائیں دوستو دُنیا نے توڑا کِس طرح
ریشۂِ اُمید سے پِھر دل کو جوڑا کِس طرح
تُم نے ماضی کو کُریدا ہے تو پِھر اِتنا کہو
زخم ہو گا مُندمِل، جائے گا پھوڑا کِس طرح؟؟