بہت ناز تھا مجھے اپنے چاہنے والوں پر

بہت ناز تھا مجھے اپنے چاہنے والوں پر
میں عزیز تھا سب کو مگر ضرورتوں كے لیے
بہت ناز تھا مجھے اپنے چاہنے والوں پر
میں عزیز تھا سب کو مگر ضرورتوں كے لیے
اب یہ سوچا ہے اپنی ذات میں رہیں گے محسن
بہت دیکھ لیا لوگوں سے شناسائی کر كے
رات دہلیز پر بیٹھی رہیں آنکھیں میری
تو نہ آیا تو کوئی خواب ہی بھیجا ہوتا
احساس محبت کی مٹھاس سے مجھے آگاہ نہ کر
یہ وہ زہر ہے جو میں پہلے بھی پی چکا ہوں
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بِیاباں میں
كے شاہین كے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی
محبت تو بارش ہے
جسے چھونے کی خواہش میں
ہتھیلیاں گھیلی ہو جاتی ہیں
مگر ہاتھ ہمیشہ خالی ہی رہتے ہیں
میں تجھ کو پانے کی حسرت میں کب تک ذلت اٹھاتا رہوں
کوئی ایسا دے مجھے دھوکہ كہ میری آس ٹوٹ جائے
سنا ہے زندگی امتحاں لیتی ہے فراز
پر یہاں تو امتحانوں نے زندگی لے لی