مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
كے دانہ خاک میں مل کر گل گلزار بنتا ہے
مقدر جن كے اونچے اور اعلی بخت ہوتے ہیں
زندگی میں انہی كے امتحان بھی سخت ہوتے ہیں
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
كے دانہ خاک میں مل کر گل گلزار بنتا ہے
مقدر جن كے اونچے اور اعلی بخت ہوتے ہیں
زندگی میں انہی كے امتحان بھی سخت ہوتے ہیں
ہنسی آتی ہے مجھے حسرت انسان پر
گناہ کرتا ہے خود لعنت بھیجتا ہے شیطان پر
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
بہت نزدیک ہو کر بھی وہ اتنا دور ہے مجھ سے
اشارہ ہو نہیں سکتا پکارا جا نہیں سکتا
وہ جذبوں کی تجارت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
اسے ہنسنے کی عادت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
مجھے وہ دیکھ کر اکثر ، نگاہیں پھیر لیتا تھا
یہ دَر پردہ حقارت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
الجھا رہی ہے مجھ کو یہی کشمکش مسلسل محسن
وہ آ بسا ہے مجھ میں یا میں اس میں کھو گیا ہوں
یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
اے عشق بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے
تو دِل میں تو آتا ہے مگر سمجھ میں نہیں آتا