ساری عمر کر كے برباد عشق کی عزت چکھ لی

ساری عمر کر كے برباد عشق کی عزت چکھ لی
اس نے بھی برقع پہن لیا ہم نے بھی داڑھی رکھ لی
ساری عمر کر كے برباد عشق کی عزت چکھ لی
اس نے بھی برقع پہن لیا ہم نے بھی داڑھی رکھ لی
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
تجھے بھولنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں
تیری یاد شاخِ گلاب ہے جو ہوا چلی تو مہک گئی
خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں
ورنہ ہجر کا موسم کس کو راس آتا ہے
تو ہواؤں کا موسم تجھ کو کیا خبر جاناں
گردِ بعد گمانی سے دل بھی ٹوٹ جاتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے غریبی میں وہ رشتہ جو خاص ہوتا ہے
ہزاروں یار بنتے ہیں جب پیسہ پاس ہوتا ہے
وہ جو دودھ شہد کی کھیر تھی
وہ جو نرم مثلِ حریر تھی
وہ جو آملے کا اچار تھا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
عشق کا اپنا غرور حسن کی اپنی انا
ان سے آیا نہ گیا ہم سے بھلایا نہ گیا