زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور شے
زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوزِ جگر ہے، علم ہے سوزِ دماغ
زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوزِ جگر ہے، علم ہے سوزِ دماغ
وہ بے حجاب جو کل پی کے شراب آیا
اگرچہ مست تھا میں ، پر مجھے حجاب آیا
ادھر خیال میرے دِل میں زلف کا گزرا
اُدھر وہ کھاتا ہوا دِل میں پیچ و تاب آیا
خیال کس کا سمایا ہے دیدہ و دِل میں
نہ دن کو چین مجھے اور نہ شب کو خواب آیا
اٹھا دے پردہ نہیں پردہ میں اٹھا دوں گا
تپش سے دِل کی ابھی عرش تک ہلا دوں گا
نہ ہوتا عشق کا میکش اگر خبر ہوتی
كے ایک جام میں دونوں جہاں بھلا دوں گا
چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
رازوں کی طرح اترو میرے دل میں کسی شب
دستک پہ میرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہالوں
بادل کی طرح جھوم کے گھِر آؤ کسی دن
تیری باتوں میں ذکر اس کا میری باتوں میں ذکر تیرا
عجب عشق ہے محسن نہ تو میرا نہ وہ تیرا
تمہاری سالگرہ پر دعا ہے یہ میری
کے ایسا روزہ مبارک بار بار آئے
تمہاری ہنستی ہوئی زندگی کی راہوں میں
ہزاروں پھول لٹاتی ہوئی بہار آئے
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا
اندھیری رات میں رہتے تو کتنا اچھا تھا
ہَم اپنی ذات میں رہتے تو کتنا اچھا تھا
دکھوں نے بانٹ لیا ہے تمھارے بعد ہمیں
تمھارے ہاتھ میں رہتے تو کتنا اچھا تھا