نیا موسم میری بینائی کو تسلیم نہیں
نیا موسم میری بینائی کو تسلیم نہیں
میری آنكھوں کو وہی خواب پرانا لا دے
نیا موسم میری بینائی کو تسلیم نہیں
میری آنكھوں کو وہی خواب پرانا لا دے
جب بارش برسا کرتی ہے
اور ہر سو پانی ہوتا ہے
ہَم اپنے گھر کے آنگن میں
امر بیل كے سائے میں
پرندوں کو دیکھا کرتے ہیں
اور تم کو سوچا کرتے ہیں
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی
خود نیچے اتر کر مجھ کو لٹکا گیا کوئی
رسما ہی میں نے پوچھ لیا کچھ کھائیے جناب
گھر میں جو کچھ پکا تھا سب کھا گیا کوئی
اِس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دِل كے رخصار پہ اِس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابحی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
بنا کے سلگتے ہوئے صحرا میں اک ریت کا گھر
پِھر یوں ہوا وہ شخص ہواؤں کو اس کا پتہ دے گیا
شکوہ نہیں ہے تیری رقیبوں سے دوستی کا
پر مارا ہنستا بستا ہوا گھر ویران ہو گیا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا