ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
بڑی دلرُبا ہے یہ ساری کہانی، ذرا پھر سے کہنا
کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایا
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا
ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
بڑی دلرُبا ہے یہ ساری کہانی، ذرا پھر سے کہنا
کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایا
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا
پنڈ کے بوہڑ تھلے ہم عشق لڑایا کرتے تھے
وہ پانڈے مانجا کر تی تھی ہم مج نہوایا کرتے تھے
وہ ہر کام میں اگے تھی ہم ہر کام میں پھاڈی تھے
وہ سبق مکا کے بہہ جاتی تھی ہم پنسل گھڑیا کرتے تھے
جب بھی کوئی سرد ہوا کا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا ہے
تیرا آہیں بھر بھر کر سسکنا میرے دِل کو محسوس ہوتا ہے
ستارے جو چمکتے ہیں کسی کی چشم حیران میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہے جمال ابرو باراں میں
یہ نا آباد وقتوں میں دلِ ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہو گی
تلاش وفا سے خود کو کیوں اذیت دیتے ہو وصی
اب مان بھی لو کے اِس دُنیا میں کوئی وفادار نہیں
کوئی گلہ کوئی شکوہ نہ رہے آپ سے
یہ آرزو ہے اک سلسلہ بنا رہے آپ سے
بس اک بات کی امید ہے آپ سے
دِل سے دور نہ کرنا اگر دور بھی رہیں آپ سے
جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے
شبنم مری آنکھوں میں وہیں تیر گئی ہے
جس کی سر افلاک بڑی دھوم مچی ہے
آشفتہ سری ہے مری آشفتہ سری ہے