جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے
شبنم مری آنکھوں میں وہیں تیر گئی ہے
جس کی سر افلاک بڑی دھوم مچی ہے
آشفتہ سری ہے مری آشفتہ سری ہے
اپنی تو اجالوں کو ترستی ہیں نگاہیں
سورج کہاں نکلا ہے کہاں صبح ہوئی ہے
بچھڑی ہوئی راہوں سے جو گزرے ہیں کبھی ہم
ہر گام پہ کھوئی ہوئی اک یاد ملی ہے
اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری
دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے
ہنسنے پہ نہ مجبور کرو لوگ ہنسیں گے
حالات کی تفسیر تو چہرے پہ لکھی ہے
مل جائیں کہیں وہ بھی تو ان کو بھی سنائیں
جالبؔ یہ غزل جن کے لیے ہم نے کہی ہے