اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شب فراق
اے مرگ ناگہاں ترا آنا بہت ہوا
ہم خلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا
اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا
اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شب فراق
اے مرگ ناگہاں ترا آنا بہت ہوا
ہم خلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا
اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا
قرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثار راہ وفا کر چکے ہیں ہم
کچھ امتحان دست جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ ان کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم
زندگی انساں کی اک دَم کے سوا کچھ بھی نہیں
دَم ہوا کی موج ہے، رم کے سوا کچھ بھی نہیں
گُل تبسّم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر
شمع بولی، گِریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
لاکھ ضبط خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے
بے پناہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا
فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اسکی آہٹ پر
مزید پڑھیں […]
آنسو آ جاتے ہیں آنكھوں میں
پر لبوں پہ ہنسی لانی پڑتی ہے
یہ محبت بھی کیا چیز ہے
جس سے کرتے ہو اسی سے چھپانی پڑتی ہے
جو میرا ہے میں کسی اور کو کیوں دوں
میں اپنی محبت میں بچوں کی طرح ہوں