یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
نہ تو زمیں كے لیے ہے نہ آسمان كے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں كے لیے
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں كے لیے
چل پڑا ہوں میں زمانے كے اصولوں پہ محسن
میں اب اپنی ہی باتوں سے مکر جاتا ہوں
ہوئی جس سبب ہَم سے تم سے جدائی
نہ تم ہَم سے پوچھو نہ ہم تم سے پو چھیں
بیان یہ تو کر دے گی ساری خدائی
نہ تم ہَم سے پوچھو نہ ہم تم سے پو چھیں
یہ مشہور ہے دِل سے ہے راہ دِل کو
کیا کرتا ہے دِل ہی آگاہ دِل کو
وہ دِل ہی سے پوچھو جو ہے دِل میں آئی
نہ تم ہَم سے پوچھو نہ ہم تم سے پو چھیں
اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسن انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
ہر بار تجھ سے ملتے وقت
تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے
تیرے جانے كے بعد بھی میں نے
تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے