ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو

ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
یاد کر كے مجھے تکلیف ہی ہوتی ہو گی
اک قصہ ہوں پرانا سا بھلا دے مجھ کو
یہ فیضان نظر تھا یا كہ مکتب کی كرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل ( علیہ السلام ) کو آداب فرزندی
چلو یہ زندگی اب ہَم تمھارے نام کرتے ہیں
سنا ہے بے وفا کی بے وفا سے خوب بنتی ہے
صرف احساس ندامت اک سجدہ اور چشم تر
اے خدا کتنا آسان ہے منانا تجھ کو
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور ، مجاہد کی اذاں اور
وہ جسے بارش پسند نہ تھی
نہ جانے کیوں آج دیر تک تنہا
دسمبر کی بارش میں بھیگتا رہا