اسے تراشا کے ہیرا بنا دیا ہم نے فراز
اسے تراشا کے ہیرا بنا دیا ہم نے فراز
مگر اب یہ سوچتے ہیں اسے خریدیں کیسے
اسے تراشا کے ہیرا بنا دیا ہم نے فراز
مگر اب یہ سوچتے ہیں اسے خریدیں کیسے
تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
یہ دنیا مطلب کی ہے تم کس مخلص کی بات کرتے ہو غالب
لوگ جنازہ پڑھنے آتے ہیں وہ بھی اپنے ثواب کی خاطر
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اک پل میں جو برباد کر دیتے ہیں دِل کی بستی کو فراز
وہ لوگ دیکھنے میں اکثر معصوم ہوتے ہیں
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
جڑتے ہوئے دیکھا نہیں ٹوٹے ہوئے دِل کو
گر جائیں جو آنسو تو اٹھائے نہیں جاتے