اب چلے بھی آؤ، کہ شام ڈھلنے لگی ہے

اب چلے بھی آؤ، کہ شام ڈھلنے لگی ہے
آفتاب ڈھلنے کو ہے،اور شمع جلنے لگی ہے
اک امید لگا بیٹھا ہوں، تُجھ سے ملنے کی میں
فُرصت ملے تو آ جانا،ورنہ تنہائی لپِٹنے لگی ہے
اب چلے بھی آؤ، کہ شام ڈھلنے لگی ہے
آفتاب ڈھلنے کو ہے،اور شمع جلنے لگی ہے
اک امید لگا بیٹھا ہوں، تُجھ سے ملنے کی میں
فُرصت ملے تو آ جانا،ورنہ تنہائی لپِٹنے لگی ہے
سزا دینی ہَم کو بی آتی ہے او بے خبر
پر تو تکلیف سے گزرے یہ ہَم کو گوارا نہیں
یقِیں نہِیں تو محبّت کو آزماتا جا
لُٹا خُلوص، وفاؤں کے گِیت گاتا جا
تقاضہ تُجھ سے اگر کر رہی کوئی ممتازؔ
دل آگرہؔ ہے محل اِس پہ تُو بناتا جا
ابھی تو ہم نے اپنی دنیا بسانی تھی
اور اک داستاں بھی تجھے سنانی تھی
تم نے پہلے ہی ختم کر دیا سب کچھ
ابھی تو میں نے گھر بھی بات منوانی تھی
مطلب تیری یاد سے بھی غافل ہو جاؤں
یہی تو اک تیری آخری نشانی تھی
ہوئی پتا نہیں مکمل غزل کیسے ؟
ابھی تو میں نے قلم بھی اٹھانی تھی
پتوں کی طرح مجھے بکھیرتا تھا زمانہ
اک شخص نے یکجا کیا اور آگ لگا دی
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی