اب چلے بھی آؤ، کہ شام ڈھلنے لگی ہے
آفتاب ڈھلنے کو ہے،اور شمع جلنے لگی ہے
اک امید لگا بیٹھا ہوں، تُجھ سے ملنے کی میں
فُرصت ملے تو آ جانا،ورنہ تنہائی لپِٹنے لگی ہے
میری خاموشی سے، نہ جانے کیا کیا بِکھر گیا
اور تو اور، میرے گھر کے در و دیوار ہلنے لگی ہے
جب سے روٹھا ہے مُجھ سے توں، تَب سے روٹھی ہے برسات
ایسی خُشک ہوئی یہ زمین ، کہ خاک اُڑنے لگی ہے
جب سے مِلی خبر، تیرے لوٹ آنے کی مُجھے
تَب سے رنجُور باغیچے پر ، بہار بَرسنے لگی ہے
تیرے سَنگ دیکھ کر مُجھے، جنہیں اَزیت پُہنچتی تھی کَل
تیرے بعد وہی دُنیا، مُجھ پہ ہنسنے لگی ہے
تُجھے ہے اندازہ، کہ کِس حال میں ہے گُل
جسم تو تھَم گیا ہے، بس رُوح نِکلنے لگی ہے
(گلفرازاحمد گُل)